Ubqari®

عالمی مرکز امن و روحانیت
اعلان!!! نئی پیکنگ نیا نام فارمولہ،تاثیر اور شفاءیابی وہی پرانی۔ -- اگرآپ کو ماہنامہ عبقری اور شیخ الوظائف کے بتائے گئے کسی نقش یا تعویذ سے فائدہ ہوا ہو تو ہمیں اس ای میل contact@ubqari.org پرتفصیل سے ضرور لکھیں ۔آپ کے قلم اٹھانے سے لاکھو ں کروڑوں لوگوں کو نفع ملے گا اور آپ کیلئے بہت بڑا صدقہ جاریہ ہوگا. - مزید معلومات کے لیے یہاں کلک کریں -- تسبیح خانہ لاہور میں ہر ماہ بعد نماز فجر اسم اعظم کا دم اور آٹھ روحانی پیکیج، حلقہ کشف المحجوب، خدمت والو ں کا مذاکرہ، مراقبہ اور شفائیہ دُعا ہوتی ہے۔ روح اور روحانیت میں کمال پانے والے ضرور شامل ہوں۔۔۔۔ -- تسبیح خانہ لاہور میں تبرکات کی زیارت ہر جمعرات ہوگی۔ مغرب سے پہلے مرد اور درس و دعا کے بعد خواتین۔۔۔۔ -- حضرت حکیم صاحب دامت برکاتہم کی درخواست:حضرت حکیم صاحب ان کی نسلوں عبقری اور تمام نظام کی مدد حفاظت کا تصور کر کےحم لاینصرون ہزاروں پڑھیں ،غفلت نہ کریں اور پیغام کو آگے پھیلائیں۔۔۔۔ -- پرچم عبقری صرف تسبیح خانہ تک محدودہے‘ ہر فرد کیلئے نہیں۔ماننے میں خیر اور نہ ماننے میں سخت نقصان اور حد سے زیادہ مشکلات،جس نے تجربہ کرنا ہو وہ بات نہ مانے۔۔۔۔

حق بات پر ڈٹی رہنے والی معصوم بچی کا واقعہ

ماہنامہ عبقری - اکتوبر 2013ء

دیکھو لڑکی سچ سچ بتادو ورنہ ہم تیرے ٹکڑے ٹکڑے کردیں گے۔ دوسرے آدمی نے بچی سے مخاطب ہوکر خونخوار لہجے میں کہا۔ میں آپ کو دو دفعہ کہہ چکی ہوں کہ مجھے کچھ معلوم نہیں کہ ابو کہاں گئے ہیں؟ تڑاخ۔۔۔۔ تڑاخ۔۔۔۔ بچی کے سیب جیسے رخسار پر ظالم نے پوری قوت سے دو تھپڑ رسید کردیئے

(رابعہ قمر‘ لاہور)
ایک معصوم بچی اپنے گردوپیش سے بے خبر پوری توجہ سے اپنے کام میں مصروف تھی۔ ہنڈیا پکا کر اب وہ اپنے چھوٹے چھوٹے ہاتھوں سے آٹا گوندھنے میں مصروف تھی کہ دروازے پر دستک ہوئی‘ کون ہے؟ بچی نے دروازہ کھولنے سے پہلے سوال کیا۔ دروازہ کھولو۔۔۔ باہر سے ایک کرخت آواز آئی۔ تین چار آدمی باہر تلواریں تانے کھڑے تھے۔ جی کیا بات ہے؟ بچی نے شائستہ لہجے میں پوچھا۔ اے لڑکی! تیرا باپ کہاں ہے؟ ایک آدمی نے بڑے غصے سے پوچھا۔ مجھے نہیں پتہ کہ میرا باپ کہاں ہے؟ تجھے پتہ ہے تو جھوٹ بکتی ہے‘ اس آدمی نے چلاتے ہوئے کہا۔ میں نے کہا نا مجھے نہیں پتہ۔۔۔ بچی بھی اپنی بات پر ڈٹی رہی‘ بچی بڑی ہمت والی تھی‘ اس کی جگہ اگر کوئی اور ہوتی تو خوف سے اُس کی آواز سن کر کانپ جاتی۔ دیکھا اُس کا جادو بچوں پر بھی چل گیا ہےاس آدمی نے اپنے ساتھیوں کی طرف دیکھا اور کہا دیکھو لڑکی سچ سچ بتادو ورنہ ہم تیرے ٹکڑے ٹکڑے کردیں گے۔ دوسرے آدمی نے بچی سے مخاطب ہوکر خونخوار لہجے میں کہا۔ میں آپ کو دو دفعہ کہہ چکی ہوں کہ مجھے کچھ معلوم نہیں کہ ابو کہاں گئے ہیں؟ تڑاخ۔۔۔۔ تڑاخ۔۔۔۔ بچی کے سیب جیسے رخسار پر ظالم نے پوری قوت سے دو تھپڑ رسید کردیئے۔ بچی اچھل کر گھر کی دہلیز پر آگئی اور اس کے کان کی لو سے خون بہنے لگا۔ جب وہ آدمی جاچکے تو بچی کوئی تاثر لیے بغیر اٹھی اور جاکر ننھے منے ہاتھوں سے روٹیاں پکانے لگی۔ اس نے روٹیاں پکا کر ایک رومال میں باندھ لیں اور اسے اپنے دوپٹے کے پیچھے چھپا لیا اور گھر سے باہر نکل کر اس نے چاروں طرف دیکھا اور ایک سمت چل پڑی۔ بچی کا سانس پھول رہا تھا لیکن وہ اپنی جسمانی حالت کی پروا کیے بغیر تیزی سے قدم بڑھا رہی تھی جہاں کہیں اسے پاؤں کی آہٹ سنائی دیتی تو فوراً اپنی رفتار آہستہ کرلیتی۔ ایک سمت مڑتے ہوئے اسے اپنے سامنے ایک غار دکھائی دی۔ غار کو دیکھ کر اس نے ایک مرتبہ پھر چاروں سمت دیکھا اور غار میں داخل ہوگئی۔
اس غار میں دو معزز ترین ہستیاں تشریف فرما تھیں‘ بچی کو دیکھتے ہی ایک آدمی اٹھ کھڑے ہوئے اوربڑے پیار سے فرمایا کہ بیٹی! تجھے آتے کسی نے دیکھا تو نہیں۔ نہیں اباجان۔۔۔! میں بڑی احتیاط سے آئی ہوں۔ شاباش۔۔۔ میری بیٹی بڑی بہادر ہے۔ لیں آپ کھانا کھالیں۔ بیٹی نے دوپٹہ سے کھانا نکال کر اُن کی طرف بڑھادیا اور خود چل پڑی۔
پیارے بچو! یہ بچی حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کی بیٹی ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی بہن حضرت اسماء رضی اللہ تعالیٰ عنہا تھیں اور ان کو مارنے والا آدمی ابوجہل تھا اور غار میں تشریف فرما دو معزز ترین ہستیوں میں سے ایک حضور نبی اکرم ﷺ اور دوسرے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ تھے۔
اس لیے پیارے بچو! ہمیں بھی اللہ سے دعا کرنی چاہیے کہ وہ ہمیں بھی ایسا پختہ ایمان عطافرمائے اور اپنے عقائد پر ڈٹے رہنے کی توفیق عطا فرمائے۔
بے شک غرور کا سر نیچا ہے
(محمدحیدر‘ لاہور)
کسی دریا کے کنارے شاہ بلوط کا ایک درخت تھا۔ وہ دل میں کہا کرتا تھا ’’میں کتنا بڑا ہوں! کتنا طاقت وَر ہوں! آندھی آئے اورکتنی ہی زور سے کیوں نہ آئے‘میری شاخیں کبھی نہ جھکیں گی‘ میرا تنا جوں کا توں رہے گا‘ نہ ٹیڑھا ہوگا نہ ٹوٹے گا۔‘‘
شاہ بلوط کے سائے میں سرکنڈوں کی جھاڑیاں تھیں اور دور سے لمبی گھاس کی طرح دکھائی دیتی تھیں۔ ایک دن درخت نے سرکنڈوں سے کہا ’’آہ! بے چارے پودو‘ تم کتنے ہلکے پھلکے اور کمزور ہو‘ ذرا سی ہوا چلے تو جھکنے لگتے ہو جب آندھی آئے گی تو تم کو توڑ پھوڑ کر رکھ دے گی لیکن میں اُس وقت بھی سر اُٹھائے کھڑا رہوں گا‘‘
آخر ایک دن آندھی آگئی‘ شاہ بلوط اکڑا کھڑ رہا۔ وہ ذرا بھی نہ جھکا۔ وہ بولا ’’سرکنڈو! تم نے دیکھا‘ آندھی میرا کچھ نہ بگاڑ سکی تم ہو کہ جھکے جارہے ہو۔‘‘
سرکنڈے تو کچھ نہ بولے‘ مگر یہ سُن کر آندھی کو غصہ آگیا۔ وہ اور تیزی سے چلنے لگی۔ اب تو بلوط بے بس ہوگیا۔ اس کی شاخیں تڑاق تڑاق ٹوٹنے لگیں۔ تنا بیچ میں سے ٹوٹ کر دو ٹکڑے ہوگیا۔ جب تک آندھی چلتی رہی‘ سرکنڈے زمین پر بچھے رہے۔ لیکن آندھی کے تھمتے ہی وہ پھر سیدھے کھڑے ہوگئے اور بولے ’’جو اکڑتے ہیں‘ وہ اکھڑتے ہیں‘ جو جھکتے ہیں وہ سلامت رہتے ہیں۔
دھوکہ بار بار نہیں چلتا
(ریحان‘ کراچی)
کسی مکان میں بہت سے چوہے رہتے تھے۔ اتفاق سے ایک بلی بھی وہاں آکر رہنے لگی۔ بلی نے آتے ہی چوہوں کا صفایا شروع کردیا۔ تھوڑے ہی دنوں میں وہ بہت سے چوہوں کو کھاگئی۔ چوہے ڈر کے مارے ہر وقت بلوں میں چھپے رہتے اور کبھی نکلتے بھی تو بڑی ہوشیاری سے‘ ادھر اُدھر دیکھ بھال کر۔ اس لیے بلی کو انہیں پکڑنے کا بہت کم موقع ملتا۔ایک دفعہ بلی کو کئی دن بھوکا رہنا پڑا۔ آخر اس نے ایک ترکیب سوچی۔ دل میں کہنے لگی ’’اگر میں آٹے میں لوٹ پوٹ جاؤں تو چوہے مجھے نہ پہچانیں گے اور میں آسانی سے انہیں پکڑلوں گی۔‘‘یہ سوچ کر اُس نے آٹے کا ایک بڑا سا پیپا اپنے اوپرالٹ دیا اور اُس میں لوٹنے لگی جب اُس نے دیکھا کہ سارے جسم پر اچھی طرح آٹا لگ گیا ہے تو چھپ کر ایک کونے میں بیٹھ گئی۔ چوہے بلی کو آٹے کا ڈھیر سمجھ کر اِدھر اُدھر دوڑنے لگے۔ کچھ چوہے بلی کے بالکل قریب آگئے۔ بلی نے جھپٹ کر ان میں سے دوچارکو پکڑلیا اور ہڑپ کرگئی۔ وہ اپنی اس کامیابی پر بہت خوش تھی۔ اس نے سوچا یہ ترکیب سب سے اچھی ہے اب میں ہر روز اسی ترکیب سے چوہے پکڑا کروں گی۔ دوسرے دن بھی بلی آٹے میں لوٹ پوٹ کر ایک کونے میں بیٹھ گئی اور چوہوں کے آنے کا انتظار کرنے لگی مگر کوئی چوہا اس کے پاس نہ آیا۔ آخر شام کے وقت ایک بوڑھے چوہے نے مچان پر سے جھانک کر دیکھا اور کہا ’’تو آٹے کا ڈھیر ہی کیوں نہ ہو‘ مگر اب ہم ہرگز تیرے پاس نہ آئیں گے۔‘‘ سچ ہے دھوکہ بار بار نہیں چلتا۔

Ubqari Magazine Rated 4.0 / 5 based on 064 reviews.